Saturday, March 22, 2014

Javed Ghamdi's Poetry.

اس پر ہوا ہے دہر میں اپنا سفر تمام
آشفتۂ فرنگ ہیں علم و ہنر تمام

عالم بھی تھا نگاہ میں ، لیکن زہے نصیب
اب اُن کی نذر کردیا ذوقِ نظر تمام

دیکھا ہے جب بھی حسن کو فطرت میں بے نقاب
زنداں لگے ہیں شہر کے دیوار و در تمام

اُس دن کی خیر جس میں بہ صد شوقِ آگہی
برپا ہوا یہ معرکۂ خیر و شر تمام

سنتے کہیں تو حسن و محبت کی داستاں
اِس شہر کے خطیب ہوئے نوحہ گر تمام

اپنے ہی سنگ وخشت سے ہر سُو اٹا ہوا
صدیوں سے دیکھتا ہوں تری رہ گزر تمام

بزمِ سخن میں تیرگی شب تھی روبرو
لایا ہوں اپنی خاک میں پنہاں شرر تمام

جاوید احمد غامدی


دل ہے ، مگر کسی سے عداوت نہیں رہی
دنیا وہی ہے ، ہم کو شکایت نہیں رہی

میں جانتا ہو ں دہر میں اس قوم کا مآل
علم و ہنر سے جس کو محبت نہیں رہی

خوفِ خدا کے بعد پھر اک چیز تھی حیا
وہ بھی دل و نگاہ کی زینت نہیں رہی

دنیا ترا نصیب ، نہ عقبیٰ ترا نصیب
اب زندگی میں موت کی زحمت نہیں رہی

وہ دن قریب آلگا ، آئے گی جب صدا
’بابر بہ عیش کوش ‘کی مہلت نہیں رہی

درماندۂ حیات ہوں ، دل تو نہیں لگا
اتنا ضرور ہے کبھی وحشت نہیں رہی

سرما کی شام ہے کوئی اجڑے دیا ر میں
جس زندگی میں شوق کی حدت نہیں رہی

اس رہ روی میں جادہ ومنزل بھی دیکھ لیں
یارانِ تیز گام کو فرصت نہیں رہی

شعر و سخن کی ، بادہ و ساغر کی گفتگو
جی چاہتا ہے ، پر وہ طبیعت نہیں رہی

پیدا کہاں یہ علم و محبت کا رازداں
تم کو فقیر سے کبھی صحبت نہیں رہی javed ahmed Ghamdi